آزاد قوم کی غلامانہ سوچ

independent nation

تحریر:حافظ خرم رشید

بنیادی طور پر غلامی کی دو اقسام ہیں۔ ایک جسمانی غلامی اور دوسری فکری غلامی۔ ان دونوں غلامیوں کی بنیادی طور پر تین وجوہ ہوتی ہیں: غربت، جنگ، اور جہالت۔ آٓزادی انسان کا بنیادی حق ہے اور انسان کی سب سے بڑی قوت اس کی ذہنی و فکری آزادی ہے ۔ جب انسان ذہنی طور پر آزاد ہو تو وہ ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرسکتا ہے اور جسمانی طور پر غلام لیکن ذہنی طور پر آزاد قوم بہت جلد جسمانی آزادی حاصل کرلیتی ہے۔ لیکن ذہنی غلامی میں مبتلا قوم اپنے آپ کو غلام ہی نہیں سمجھتی اس لیے آزادی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

موجودہ دور میں اگرچہ پاکستان میں جسمانی غلامی کی لعنت کا خاتمہ ہوچکا ہے لیکن ہم آج بھی ذہنی غلام ہی ہیں، ملک میں یہ مسئلہ اتنی گھمبیر صورت اختیار کرچکا ہے کہ ہم تفرقاتی، ذات پات، رنگ نسل، زبان و بیان، دھن دولت، شہرت، لباس، نشست و برخواست کے طریقوں، دسترخوان اور کھانے پینے کے آداب، تہواروں اور شادی بیاہ کے معاملات میں بھی ذہنی غلامی کا شکار نظر آتے ہیں اور اب  ذہنی غلامی کا یہ پودا ایک گهنا درخت بن چکا ہے جسے جڑ سے اکھاڑ پهینکنے کےلئے شاید صدیاں بیت جائیں۔

ہمارا سب سے بڑا المیہ وہ چشمے ہیں جو ہم نے اپنے اپنے مسالک، اکابرین، جاگیرداروں، خانوں اور وڈیروں کے نام پر چڑھا رکھے ہیں۔ ہمارے ہاں دلائل کے بجائے شخصیات کی بنیاد پر حق و باطل کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اگر آمر آئین روند کر آتا ہے تو جمہوری لبادہ اوڑھ کر آنے والا بھی آدھے سے زائد ووٹ دھاندلی، بلیک میلنگ اور ساز باز سے لے کر آتا ہے۔ دونوں ہی عوامی مجبوریوں کے کندھے استعمال کرتے ہیں، ہماری عوام جب انتخابات میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرتی ہے تو وہ انسان کے بجائے نشان کو ووٹ دے کر خوش ہوجاتے ہیں اور پھر فیصلہ کرنے کا حق گنوا کر اپنی قسمت کا رونا روتے رہتے ہیں۔


اگر کوئی عوامی نمائندہ انتخابات کے بعد یا انتخاب سے پہلے ووٹ مانگنے کےلئے ہمارے محلے میں آ جائے تو اُس کی اس طرح خوشامدیں کی جاتی ہیں جیسے ہم چاہ رہے ہوں کہ صاحب آپ کیوں تشریف لائے؟ ہمیں حکم دیتے ہم آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوجاتے۔ ہم اپنی فریاد لئے حکمرانوں کے پاؤں میں پڑے رہنے کو ہی اپنا اعزاز سمجھتے ہیں،  ہم وہ ذہنی غلام ہیں جو ظالموں کو پریشانی میں دیکھ کر تڑپ اٹھتے ہیں اور دعا گو ہوجاتے ہیں کہ اللہ اِن کی مشکلات آسان کر، تاکہ وہ ہماری آسانی کو مشکلات میں بدلتے رہیں۔

ہمدردی کی نسل سے تعلق رکھتی یہ غلامی اُس غلام کی دوہری کمر کی طرح ہے جو پنجرے میں پڑے پڑے ٹیڑھی ہوجاتی ہے اور پنجرے سے باہر نکلنے پر بھی ہم آہستہ آہستہ سیدھی ہوتی کمر کو پھر سے ٹیڑھا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ہم دوہری کمر کے عادی ہوچکے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں متعدد گھرانوں کی بیٹیاں صرف اِس وجہ سے شادی کے بندھن میں بندھنے سے گریزاں ہیں کہ ان کے ماں باپ اُن کے جہیز کا بندوبست نہیں کرپاتے۔ یہ لعنت بھی ہماری ثقافت کا حصہ بنی چکی ہے جب کہ حقیقی معنوں میں جہیز کی لعنت کا ہمارے دین اور ثقافت سے دور دور تک کا واسطہ نہیں، لیکن کیا کریں صاحب ہم بھی برصغیر پاک وہند کی سرزمین پر پروان چڑھے ہیں تو پھر ہندوؤں کی یہ روایت  اپنانا ہماری زندگی کا لازمی جزو بن گیا ہے۔ ایک دوسرا پہلو اِس نوجوان طبقے کا ہے جو اپنی تعلیم مکمل کرنے سے پہلے ہی یہ فیصلہ کرلیتے ہیں کہ ہمیں کس کا غلام بننا ہے، خود کو کتنی قیمت پر بیچنا ہے اور اگر غلامی کا طوق ہمارے گلے میں نہ ڈالا گیا تو پھر اپنی ڈگری، تعلیمی اداروں اور حکومت کو کیسے لعن طعن کرنا ہے یا پھر غلامی نے ہمیں قبول نہ کیا تو ہم موت کو قبول کرلیں گے۔

الغرض ہم آج تک اپنے افضل ترین امت ہونے اور زرخرید غلام ہونے میں فرق نہ کرسکے، ہم میں اتنی بھی اخلاقی جرأت باقی نہیں رہی کہ اگر ہمارے حقوق کی پامالی کی جاتی ہے تو اس کے خلاف احتجاجاً کھڑے ہوسکیں۔ ہمیں احساس کمتری کو ترک کرکے اپنا محاسبہ کرنا ہوگا دوسروں کے بجائے اپنی برائیوں کو دور کرکے زندگی کے داخلی اور خارجی انتشار میں اپنے راستے کی تلاش خود کرنا ہوگی، ہر دلکش اور رحجان بن جانے والی چیز کو اپنی راہِ نجات سمجھنے کے بجائے اُس کی حقیقی قدروقیمت معلوم کرنا ہوگی۔

نوٹ: اوورسیز ٹریبیون اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




Recommended For You

Leave a Comment